خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

پیر، 6 ستمبر، 2021

کائنات کی عمر

 کائنات کی عمر

قدیم ترین ستاروں کی پیمائش اور کائنات کے پھیلاو کے مشاہدے کے بعد سائنسدان اس نتیجے پہ پہنچے ہیں کہ یہ کائنات تقریبا تیرہ اعشاریہ آٹھ بلین سال پرانی ہے۔ سائنسدانوں نے کہکشاوں سے پھوٹنے والی روشنی کے مشاہدے سے کائنات کے پھیلاو کا اندازہ لگایا ہے کیونکہ تقریبا تمام کی تمام کہکشائیں وقت کے ساتھ ساتھ نہ صرف ہماری زمین سے بلکہ ایک دوسرے سے بھی دور ہوتی جا رہی ہیں ۔ ان کا فاصلہ جتنا زیادہ ہوتا جا رہا ہے یہ اتنی ہی تیزی سے حرکت کرتی جا رہی ہیں ۔ سائنسدان اس بات پہ حیران ہیں کہ بجائے اس کے گریویٹی ان کی رفتار آہستہ کرے وقت ان کہکشاوں کی رفتار کو تیز تر کرتا جا رہا ہے ۔ شاید مستقبل میں زمین سے ان کا فاصلہ اتنا بڑھ جائے کہ زمین سے انکی روشنی نظر آنا بند ہو جائے گی ۔


اس بات کو ہم اس طرح سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ مادہ، انرجی اور کائنات کے باقی تمام اجزاء اس وقت ویسے نہیں ہیں جس طرح ایک ہفتہ یا چند دن قبل تھے ایک تو کائنات میں ہونیوالی مسلسل تبدیلیوں اور دوسرا فاصلہ اور وقت کی وجہ سے ہم موجودہ صورتحال کا اندازہ کرنے کے قابل نہیں ہیں بلکہ ماضی کے بارے میں بھی کوئی بات وقت کے مطابق نہیں بیان کر سکتے اور نہ ہی وقت کا درست اندازہ دے سکتے ہیں کہ کوئی تبدیلی کتنے ملین یا بلین سال قبل رونما ہوئی ۔
اب یہی صورت ہے کہ اگر ہم کہکشاوں کا فاصلہ ناپیں اور ماضی میں دور پیچھے تک چلے جائیں تو یہاں تک کہ ابھی کہکشائیں بنی بھی نہ ہوں یا ستاروں نے ہائیڈروجن سے ہیلیم بنانی شروع بھی نہ کی ہو تمام اجزاء اتنے نزدیک اور گرم تھے کہ ایٹم کی تشکیل بھی نہ ہو پائی تھی اور ہر چیز ایک ہی جگہ موجود تھی اور اگر کچھ اور ماضی میں جائیں تو صرف مادہ نہیں بلکہ تمام کی تمام کائنات کا مرکز ایک ہی تھا ۔
کائنات کے جائے وقوعہ تک پہنچنا تو شاید ایک دیوانے کا خواب ہی رہے کیونکہ انسان تو بگ بینگ تک ہی نہیں پہنچ سکتا ایسا نہیں تھا کہ کائنات ایک تاریک گہری جگہ تھی جس میں موجود تمام مادہ ایک دھماکے سے پھٹ کر پھیل گیا ۔ کائنات موجود نہیں تھی خلا موجود نہیں تھی وقت چونکہ کائنات کا حصہ ہے تو وہ بھی موجود نہیں تھا یہ سب کچھ بگ بینگ کے ساتھ شروع ہوا اور ہماری کائنات اور خلا ایک نقطے سے پھیل کر لامتناہی سلسلوں تک پہنچ گئی ۔۔
ہماری زمین اور چاند ان کے ساتھ دوسرے سیارے اور ان کے درجنوں چاند اس کائنات کا حصہ ہیں ۔ سیارچوں اور دمدار ستاروں سمیت سیارے سورج کے گرد چکر کاٹتے ہیں۔ سورج ملکی وے کہکشاں میں موجود ہزاروں لاکھوں ستاروں میں سے ایک ہے جن کے اپنے سیارے ہوتے ہیں ۔ ملکی وے کائنات میں موجود کئی بلین کہکشاوں میں سے ایک ہے جن کے درمیان میں لامتناہی بلیک ہول موجود ہیں۔ ہماری کہکشاں بھی انھی میں سے ایک ہے ۔ تمام کہکشاوں کے تمام ستارے اور وہ سب اجرام فلکی جن کے بارے میں ابھی کچھ پتہ نہیں، یہ سب اس کائنات کا حصہ ہیں مختصر یہ کہ ہر چیز کائنات میں شامل ہے۔
اگرچہ کائنات پیچیدہ ترین ہے لیکن ہم اسکو دور دراز نہیں کہہ سکتے جہاں ہم اس وقت موجود ہیں وہاں سے خلا صرف سو کلومیٹر دور ہے ۔ دن ہو یا رات ، گھر میں یا باہر ، کھانا کھاتے ہوئے یاسوتے ہوئے بھی یہ ہمارے اوپر کچھ ہی میل دوری پہ ہوتی ہے ۔ زمین کے مخالف سمت میں ہمارے پیروں کے نیچے تقریبا بارہ ہزار آٹھ سو کلومیٹر تک بھی خلا ہی شروع ہو جاتی ہے ۔ اگرچہ دیکھا جائے تو انسان خلا کے اندر موجود ہیں جبکہ کہا یہ جاتا ہے کہ خلا باہر ہے جیسے کہ زمین باقی کائنات کا حصہ نہ ہو اور ایک طرف رکھی گئی ہو۔
جبکہ زمین ایک سیارہ ہے اور یہ خلا میں اس کائنات کا حصہ ہے جیسے کہ باقی تمام سیارے ہیں ایسا اسلئے لگتا ہے کہ یہاں جاندار موجود ہیں اور زمین کے ارد گرد کے ماحول میں زندگی کا وجود ممکن ہے ۔ ہماری زمین اس کائنات کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جیسے اردو زبان میں نقطہ لگایا جاتا ہے اور شاید باقی کی تمام کائنات ایک ایسا پر خطر ماحول رکھتی ہے جس میں زندگی کا وجود بھی ممکن نہیں۔
تمام مادہ اور انرجی مل کر کائنات کی تشکیل کرتے ہیں مادہ کی سادہ ترین قسم ہائیڈروجن کے ایٹموں کی شکل میں موجود ہے جن میں صرف ایک پروٹون اور الیکٹران ہوتا ہے اگر کسی ایٹم میں نیوٹران بھی موجود ہو تو ڈیوٹیریم کہلاتا ہے اور اس کی خاصیت عام ہائیڈروجن سے دوگنا ہو جاتی ہے ۔ دو یا زیادہ ایٹم جن کا الیکٹرون ایک ہو مالیکیول کہلاتے ہیں۔ کئی ٹریلین ایٹم مل کر گرد کا ایک ذرہ تشکیل دیتے ہیں ۔ زمین سے اگر تین سو تینتیس ہزار ہائیڈروجن اور ہیلیم کے مجموعے اکٹھے کئے جائیں (جو کہ ممکن نہیں) تو سورج کے جیسا ایک ستارہ بنایا جا سکتا ہے ۔
انسانوں نے اپنی آسانی کے لئے مادے کی خصوصیات کے مطابق اس کی مختلف اقسام میں درجہ بندی کر دی ہے ۔ کہکشائیں، ستارے ان کے جھرمٹ، سیارے ، چاند، سیارچے، شہاب ثاقب اور دائرے وغیرہ یہ سب مادہ کے مجموعے ہیں جن کی خصوصیات آپس میں مختلف ہیں مگر ایک ہی قانون فطرت کی پابندی کر رہے ہیں۔
سائنسدانوں نے مادہ کی مختلف اقسام کے مشاہدے کے بعد جو تعداد اخذ کی ہے وہ نہایت حیران کن ہے ۔ ہماری کہکشاں، ملکی وے میں ایک سو بلین ستارے موجود ہیں اور جو کائنات انسان کے علم میں ہے اس میں کم از کم سو بلین سے زیادہ کہکشائیں موجود ہیں۔ اگر تمام کہکشائیں ایک ہی سائز کی ہوں تو ایک اندازے کے مطابق ہزاروں ملین بلین ستارے کائنات میں ہوں گے لیکن اس کائنات میں مادہ کی کچھ ایسی شکلیں بھی موجود ہیں جن کا نہ تو ہمیں پتہ ہے اور نہ ہی کوئی اندازہ مستقبل میں بھی لگانا ممکن ہے کیونکہ انرجی اور مادہ کی ایسی شکلیں بھی موجود ہیں جو نہ تو ہماری بصارت میں آ سکتی ہیں اور نہ ہی مشاہدے میں ۔ تمام ستارے، سیارے، کہکشائیں بلیک ہول اور باقی تمام اجرام مل کر اس کائنات کا صرف پانچ فیصد ہیں۔ باقی میں سے ستائیس فیصد ڈارک میٹر اور اڑسٹھ فیصد ڈارک انرجی ہے جس کا کوئی دور دراز تک اندازہ بھی نہیں لگایا جا سکتا ۔ صرف یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر موجود نہ ہوں تو کائنات جس طرح سے کام کر رہی ہے ویسے ممکن نہ ہو ان کو ڈارک انرجی اور ڈارک میٹر کا نام اسلئے دیا گیا ہے کہ سائنسدان ان کو مشاہدہ کرنے کے لئے دیکھ نہیں سکتے فی الوقت تو یہ ممکن نہیں ہے مستقبل بعید میں شاید ایسی کوئی صورت پیدا ہو جائے ۔
کائنات کے بارے میں انسانی علم کائنات کے دائرہ کار اور وقت کے ساتھ اس میں تبدیلی کے مشاہدے سے وسیع ہوتا ہے ۔ لاتعداد سالوں تک تو کائنات کے بارے میں انسانی علم تھا ہی نہیں اور نہ ہی اس کو جاننے بارے میں کوئی کسی قسم کا ذریعہ تھا ۔ قدیم انسان کائنات کے بارے میں صرف اندازے ہی لگا سکتے تھے اور انکے پاس ہر چیز کی خود ساختہ وضاحت موجود تھی اور قدیم علم حقیقت سے زیادہ انسانوں کے اپنے رویئے، امید، لگن اور شوق پر مشتمل تھا ۔ کئی صدیوں قبل انسان نے علم ریاضی کا استعمال شروع کر دیا وقت کے ساتھ ساتھ ان میں مشاہدے اور علم کا اضافہ ہوتا گیا مفروضے بنتے گئے اور ان پہ تحقیق ہوتی گئی ۔ وقت کے ساتھ ساتھ تحقیق بھی سائنسی طریقہ کار میں ڈھلتی گئی اور کائنات کا دائرہ کار بھی کسی حد تک انسانی علم میں آتا گیا۔ چند صدیاں قبل انسان نے سائنسی طریقہ اختیار کر لیا تھا اگرچہ اس وقت کی لغت میں لفظ سائنسدان شامل نہیں تھا ۔ ریسرچرز اور سائنسدان ایک عرصے تک فلاسفرز کہلایا کرتے تھے۔
تب سے لے کر آج تک کائنات کے بارے میں انسانی تحقیق میں اضافہ ہوتا گیا ہے تقریبا ایک صدی ہی قبل ماہر فلکیات اپنی کہکشاں کے علاوہ بھی کہکشائیں دریافت کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور تقریبا پچاس سال ہی ہوئے ہیں کہ انسان نے دوسری دنیاوں کی طرف سفر شروع کیا ہے اور اسی عرصے میں یہ ممکن ہوا ہے کہ اپنے نظام شمسی سے باہر چار بڑے سیاروں اور انکے لا تعداد چاند اور ستاروں کی تصویر لینا ممکن ہوا ہے ، پہلی دفعہ مریخ کی سطح تک گاڑیوں نے سفر کرنا شروع کیا ، انسان نے خلا میں ایک مستقل سٹیشن تعمیر کیا ہے اور تاریخ کی سب سے بڑی خلائی دوربین کے ذریعے خلا میں دور دراز تک کی خوبصورت تصویریں بنا لی گئی ہیں۔ اس صدی میں ہی سائنسدانوں نے ہزاروں دوسرے سیاروں کو دریافت کیا ہے ، کشش ثقل دریافت کر لی گئی ہے اور سب سے بڑی کامیابی پہلی مرتبہ بلیک ہول کی تصویر لی گئی ہے ۔
روز بروز سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی اور انسانی تخیل کی پرواز سے کائنات کی تہ در تہ پرتوں میں چھپے راز افشا ہو رہے ہیں انسان ابھی اپنے نظام شمسی میں موجود تمام دنیائوں تک رسائی نہیں پا سکا ہے اسلئے ہم یہ کہ سکتے ہیں کہ شاید زیادہ تر کائنات ایک پہیلی ہی رہے ۔ کائنات تقریبا چودہ بلین سال قدیم ہے ہمارا نظام شمسی چار اعشاریہ چھ بلین سال ، زمین پر زندگی غالبا تین اعشاریہ آٹھ بلین سال قبل شروع ہوئی اور حضرت انسان صرف چند لاکھ سال ہی قدیم ہے ۔ سادہ الفاظ میں زمین کے جانداروں سے چھپن ہزار سال دفعہ کائنات کی عمر زیادہ ہے اس اندازے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ کائنات میں سب کچھ انسان سے پہلے وجود میں آیا اور انسان کے پاس اپنے بے شمار سوالات کے جواب پا لینا فی الحال کائنات میں سب سے آخر میں آنے کی صورت میں ممکن نہیں ہے ۔
سحر عندلیب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں