خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 11 فروری، 2020

فوٹو گراف ففٹی ون

ویلکم ٹرسٹ کی جانب سے منعقدہ ایک انلائن مقابلے میں ایک ملین سے زیادہ شاہ پارے ارسال کئے گئے جو کہ تمام کے تمام جینیٹکس سے متعلقہ تھے ۔ ان شاہ پاروں میں زیادہ تر ریسرچ پیپرز، نوٹ بکس ، خطوط اور تصویریں تھیں یہ تمام نادر نمونے آج کل برطانیہ اور امریکہ کے چھ بڑے اداروں میں رکھے گئے ہیں ۔ یہ ادارے بالترتیب ویلکم لائبریری ، کنگز کالج لندن ، چرچل آرکائیو سنٹر کیمبرج ، یونیورسٹی آف گلاسکو ، یونیورسٹی 
کالج لندن اور کولڈ سپرنگ ہاربر لیبارٹری ہیں۔


فوٹو گراف ففٹی ون روزالنڈ فرنکلن اور رے گوسلنگ نے 1952ء میں بائیو فزکس ڈیپارٹنمنٹ میں لی اور یہ عالمگیر نوعیت کی بہترین فوٹوگراف قرار دی گئی ہے۔ اسی امیج کی وجہ سے دو دہائیوں سے جاری تحقیق کو مکمل کرنے میں مدد مل سکی ۔

یہ کوئی عام کیمرے کی مدد سے کی جانے والی تصویر نہیں ہےبلکہ مائع ڈئ این اے کا ایک انتہائی چھوٹا سیمپل لے کر اس پر ایکسرے بیم گرائی گئی اور اس کا دورانیہ ساٹھ گھنٹوں سے زیادہ رکھا گیا جس کی وجہ سے حاصل کردہ تھری ڈی تصویر جب سامنے آئی تو سائنس دانوں پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ گئے۔ کنگز کالج کے سائنس دان مارس ولکنز نے جب کیمبرج میں واقع کیون ڈش لیبارٹری کے جیمز واٹسن کو دکھایا تو اس کا منہ حیرت سے نہ صرف کھلا رہ گیا بلکہ رگوں میں خون تیزی سے گردش کرنے لگا۔ سائنسدان کا کہنا ہے کہ فوٹو گراف ففٹی ون کی تصویر انتہائی چھوٹی تھی جو کہ صرف سینٹی میٹرز پر مشتمل تھی لیکن شیشے کا یہ انتہائی چھوٹا ٹکڑا درحقیقت اپنے اندر ایک عہد کو سموئے ہوئے تھا ایک ایسی دریافت جو کہ زمانوں تک یاد رکھے جانے کے قابل تھی ۔ ڈی این اے کی تشکیل کو جاننے کے بارے میں کسی بھی قسم کی پیش رفت اس فوٹو گراف کے بنا ممکن نہیں تھی ۔ تصویر میں دکھایا جانے والا لہر دار پیٹرن دراصل ڈی این اے کی پیچ در پیچ ساخت کی بہترین شکل ہے ۔ ڈی این اے کی دوہری ساخت جس کے لئے بیالوجی میں ' ڈبل ہیلکس ' کی اصطلاح وسیع پیمانے پر استعمال ہوتی ہے ۔ اس کی تصدیق کر دینے کی وجہ سے فوٹو گراف ففٹی ون کو آفاقی اہمیت حاصل ہو گئی ۔ ڈبل ہیلکس کی اصطلاح بھی ریمنڈ گوسلنگ نے اپنے آرٹیکلز میں پیش کی تھی۔
ڈی این اے کی باہر والی زنجیر ہائیڈروجن اور فاسفیٹ کے کچھ گروپس سے بنی ہوتی ہے اور اندرونی جانب پروٹین کے جینیاتی کوڈ موجود ہوتے ہیں اس طرح اس کی باہر اور اندر والی ساخت کی وجہ سے ہی اس کو ' ڈبل ہیلکس ' کا نام دیا گیا ہے ۔ ڈی این کی تصویر سے اس کی مزید وضاحت دیکھی جا سکتی ہے اور واٹسن اور کرک کے اعداد و شمار کے ساتھ ساتھ گوسلنگ اور فرینکلن کی مہیا کردہ تصویر کی بدولت ہی ڈی این اے کی ساخت اور سائز متعین ہو سکا۔
لیکن اس تصویر نے سائنس کی دنیا میں بہت سے تنازعات کو بھی جنم دیا ۔ اس تصویر کا کریڈٹ دینے کے لئے تنازعات کی ایک لمبی فہرست بن گئی جس کی وجہ سے اس تصویر کو وہ اہمیت حاصل نہ ہو سکی جو کہ اسے ملنی چاہیئے تھی۔
مئی 1952ء میں ریمنڈ گوسلنگ نے یہ تصویر کنگز کالج لندن میں اپنی پی ایچ ڈی کی ڈگری کے حصول کے دوران روزلنڈ فرینکلن کی سپر ویژن میں لی ۔ لیکن بعد میں روزلنڈ فرینکلن کی اجازت کے بنا ہی ریمنڈ گوسلنگ کے دوسرے سپروائزر مورس ولکنز نے جب یہ تصویر اپنے دوست جیمز واٹسن کو دکھائی تو اصل مسئلہ اسی وقت شروع ہو گیا ۔ جیمز واٹسن نے فرنسس کرک کے ساتھ مل کر فوٹو گراف ففٹی ون کو ڈی این اے مالیکیولز کے کیمیکل ماڈل کی وضاحت میں ثبوت کے طور پر پیش کر لیا ۔اس دریافت نے جدید بیالوجی کی بنیاد رکھی اور دنیا بھر میں ہمیشہ کے لئے شہرت حاصل کر لی۔ یہ باقاعدہ 1953ء میں مجموعی طور پر تمام سائنسدانوں کی جانب سے جب پبلش کروایا گیا تو صرف واٹسن ، کرک اور ولسن کے لئے فزیالوجی اور میڈیسن کے نوبل انعام کا اعلان کر دیا گیا اور چار سال قبل ہونے والی روزلنڈ فرینکلن کی موت کی وجہ سے نوبل انعام کے لئے نامزدگی نہ کی گئی بلکہ اس سلسلے میں اس کی دن رات محنت سے کی گئی ریسرچ جس کے بنا بیسویں صدی کی سب سے بڑی دریافت کا ہو جانا ممکن نہیں تھا وہ بھی بدقسمتی سے مکمل طور پر فراموش کر دی گئی ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں