خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 11 فروری، 2020

پہلے ایٹم بم کی تیاری

گیتا میں لکھا گیا ہے کہ وشنو نے اپنے شہزادے کو کہا کہ میں اب موت ہوں جو دنیا کو لے ڈوبتی ہے



معروف ترین طبیعات دان رابرٹ اوپن ہائمر نے جب پہلا نیوکلیئر دھماکہ دیکھا تو اسے ہندو مذہب کی کتاب کا یہی فقرہ یاد آ گیا جس کا اس نے برملا اظہار بھی کیا۔ جرمنی میں نیوکلیئر فشن کا تجربہ ہو چکا تھا اور اب ہٹلر نیوکلیئر بم حاصل کر لینے کے نزدیک تھا۔ امریکہ نے فوری طور پر دنیا بھر کے بہترین سائنس دانوں کو اکٹھا کیا اور جرمنی سے آگے کا کام شروع کر دیا ۔ ان معروف سائنس دانوں مین آئن سٹائن بھی تھا جس نے صدر فرینکلن روز ویلٹ کو اپنے خط میں نہ صرف اس نیوکلئیر تابکاری کے نتیجے میں ہونے والی تباہی سے بلکہ اس پروگرام کی کچھ تفصیلات اور ضروریات سے آگاہ کیا ۔ یہ خط اس نے اپنے ہنگیرین ساتھی لوئس زیلرڈ کی درخواست پر لکھا۔ اکتوبر 1939ء میں امریکی صدر نے مین ہیٹن میں پروجیکٹ شروع کروایا جس میں بالاخر ایٹم بم بنایا گیا۔ اطالوی طبیعات دان اینریکو فیرمی نے اس پہ کام شروع کیا جو کہ جنوری 1939ء میں امریکہ پہنچا۔ اسنے اپنے ایٹمی کام پر حال ہی میں فزکس کا نوبل انعام پایا تھا ۔ کیمیادان اوٹوہن اور فرٹزسٹریس مین نے 1938ء میں جرمنی میں کچھ تجربات کئے تھے جن کے نتیجے میں بیرئم کو دریافت کر لیا گیا تھا۔ درحقیقت نیوکلیئر فشن کی دریافت کا سہرا ان دونوں کے سر ہی جاتا ہے لیکن انھیں تو خود بھی پتہ نہیں چل پایا تھا کہ وہ کیا انقلاب دریافت کر چکے تھے۔ لائز مٹس نے یہ بعد میں پتہ چلایا کہ وہ دونوں یورئنیم کے نیوکلئس کو توڑ چکے تھے ۔ مٹس کے بھانجے نے دنیا کے بہترین طبیعات دان نیل بوہر کو اس بارے میں بتایا جب وہ امریکہ کے لئے روانہ ہونے کے لئے بحری جہاز میں سوار ہو رہا تھا اس نے امریکہ جاتے ہی فیرمی اور پرنسٹن یونیورسٹی کے ایک طبیعات دان کو اس دریافت سے آگاہ کیا تو فیرمی نے فوری طور پر کولمبیا یونیورسٹی میں ایٹمی تابکاری پہ کام شروع کر دیا اور جلدی ہی کامیاب بھی ہو گیا ۔ فشنگ کے عمل کے دوران ٹوٹنے والے نیوٹرانز مزید تابکاری کرتے جاتے ہیں ۔ ستمبر کے مہینے تک انھوں نے اس پر اپنا کام مکمل کر لیا تھا اور یہ بھی دریافت کر لیا تھا کہ یورینئم کے کون سے آئسو ٹوپ میں یقینی طور پر تابکاری کا عمل وقوع پذیر ہوتا ہے ۔ اب اس عمل سے خارج ہونے والی توانائی کا اندازہ لگانا آسان ہو گیا تھا ۔ دنیا بھر میں یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی کہ اس نئے دریافت شدہ عمل سے بے پناہ توانائی حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تباہی لانا بھی ممکن ہو گیا ہے ۔ فیرمی کو غیر ملکی ہونے کے باوجود ایٹمی تودا (جس کو آج کل نیوکلیئر ری ایکٹر کے نام سے جانا جاتا ہے) بنانے کی ذمہ داری سونپ دی گئی جو کہ بلا شبہہ اس وقت تک دنیا کا سب سے معروف نیوکلیئر ماہر تھا اور دوسرے سائنس دان اس کو اپنی غیر معمولی ذہانت اور فزکس میں علم کی وجہ سے ” دی پوپ ” کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ شکاگو یونیورسٹی کے فٹ بال سٹیڈیم کے نیچے اس نیوکلیئر ری ایکٹر پر کام شروع کیا گیا ۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ فشن کے عمل کے دوران ٹوٹنے والے نیوکلیئس کی ایک زنجیر بنائی جائے جو کہ مزید تابکاری کر سکے ۔ فیرمی نے جلدی پتہ لگا لیا کہ قدرتی یورینئم کے نیوٹرانز کو اس مقصد میں سست کرنے کی ضرورت تھی اس نے فیصلہ کیا کہ ان نیوٹرانز کو سست کرنے کا عمل کاربن کی ایک قسم گریفائٹ سے کیا جا سکتا تھا لیکن فیرمی کے اندازے کے مطابق گریفائٹ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہ ہو سکے ۔ گریفائٹ میں بہت زیادہ کثافتیں ہونے کی وجہ سے ان کے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے تھے اس لئے انھوں نے ایسی کمپنی کی تلاش شروع کی جو انھیں مکمل تلخیص شدہ گریفائٹ فراہم کر سکے ۔ اس کے لئے انھوں نے دگنی قیمت پر گریفائٹ خریدی اور بالاخر فیرمی کا تابکاری تودا تیار ہو گیا ۔ جس کا تجربہ 2 دسمبر 1942ء کو امریکہ کی ایک خفیہ لیبارٹری میں کیا گیا جہاں طبیعات دانوں نے وہ تابکار بم بنائے جنھوں نے 1945ء میں دوسری جنگ عظیم کا تو خاتمہ کر دیا مگر لاتعداد بیماریوں اور آفتوں کو جنم دے دیا جن میں سب سے بڑی تباہی جاپانی شہروں کی نوے فیصد عوام کی موت کی صورت میں ظاہر ہوئی جس کا ازالہ رہتی دنیا تک ممکن نہیں ہے ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں