خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 16 اکتوبر، 2018

حقوق نسواں کی تحریکیں

حقوق نسواں کی تحریکیں


پچھلے دنوں پاکستان میں حقوق نسواں کے نام سے شروع ہونے والی خود ساختہ تحریک میرا جسم میری مرضی ' اور 'اپنا کھانا خود گرم کر لو" کے بیک گراونڈ سے بہت سے لوگ ناواقف ہوں گے۔ میرا یہ تحریر لکھنے کا مقصد صرف اسکے تاریخی پس منظر سے آگاہ کرنا ہے کہ حقوق نسواں کے بینر تلے نظر آنے والی ایسی تحریکوں کی ابتدا کہاں سے ہوئی۔
ساٹھ کی دہائی میں امریکہ میں شہری حقوق کی تحریک اپنے زور پر تھی یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ کوئی شخص بھی اس برابری کے نعرے سے متاثر نہ ہوا ہو ہاں البتہ اگر کوئی کسی غار میں رہتا ہو تو الگ بات ٹھہری ۔ تحریک البتہ تمام سیاہ و سفید آدمیوں کے بنیادی شہری حقوق سے شروع ہوئی مگر لکیر کے پار سے کہیں خواتین کا ایک گروہ بھی اٹھ کھڑا ہوا کہ اگر تمام مرد برابر پیدا کئے گئے ہیں تو اسمیں پھر عورتیں بھی آ جاتی ہیں ۔
1960 سے پہلے کے دقیانوسی خیالات کے مطابق عورت صرف بیوی ، گھریلو خادمہ یا گھر کے اندر رہنے والی اور بچے پالنے والی کا نام تھا کسی عورت کے لئے یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اگر وہ نرس یا استاد نہیں تھی تو وہ باہر نکل کے کوئی کام کرتی اس کے علاوہ کسی عورت کو باہر جانے کی کوئی ضرورت تھی نا ہی اجازت کیونکہ وہ پیسوں اور باہر کے کاموں کے لئے مردوں کی محتاج تھیں سیدھی طرح اگر کہا جائے تو عورتوں کی جگہ بس گھر میں تھی اور بھی شوہر کی حاصلکردہ کسی ٹرافی کیطرح جس کو بس دکھایا جاسکے ۔
سفید فام عورتیں خصوصا 1960 کی بنیادی حقوق کی تحریک سے متاثر ہوئیں کیونکہ ان کو مردوں کے معاشرے میں خاص دباو کا سامنا تھا ۔ افریکن امریکی عورتیں بھی اس تحریک کا حصہ نظر آئیں مگر ان کی شمولیت کا جہاں تک تعلق ہے وہ اس وجہ سے تھی کہ انھیں اپنی نسل اور جنس کی وجہ سے دوہری منحوسیت کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ خواتین کا مطالبہ تھا کہ وہ اپنے فیصلے خود کرنے کے قابل سمجھی جائیں جس میں بالخصوص اگر بات ان کے جسم سے متعلق ہو مزید یہ کہ وہ مردوں کی حاکمیت سے نجات پا جائیں ۔ وہ خود کو نہ صرف اپنے خاندان بلکہ معاشرے کے لئے بھی فائدہ مند فرد ثابت کرنا چاہتی تھیں ۔
سفید اور سیاہ فام عورتیں اپنی زندگی جینا چاہتی تھیں اس تحریک کے دوران سیاہ فام عورتوں کو سفید کے مقابلے میں بہت زیادہ امتیازی سلوک کا سامنا تھا دونوں نسلوں کی عورتوں کا ہی سانجھا دکھ یہ تھا کہ انکی زندگی ان کے لئے کم اور مردوں کی خدمت کے لئے زیادہ اہم سمجھی جاتی تھی خواتین کو گھریکو کام کاج کی باندی ہی سمجھا جاتا تھا انکا کام دن و رات کے دوران ختم نہیں ہوتا گھر سنبھالنا بچوں کی دیکھ بھال صفائی کھانا پکانا مردوں کی خدمت بجا لانا غرض یہ کہ ایک عورت کسی لمحے بھی خود کے لئے یا اپنی ذات کو وقت دینے کے لئے فارغ نہیں تھی ۔ زیادہ ظلم کی بات تو یہ تھی کہ عورتوں پہ پیسوں کے معاملے میں اعتبار نہیں کیا جاتا تھا حتی کہ اگر کوئی عورت پیسے بنانے کے قابل تھی بھی تو اسکو وہ رقم اپنے شوہر کو دینی پڑتی تھی اور یہی اسوقت کا رواج تھا۔
تحریک نسواں آگ کے شعلوں کی طرح مختلف سالوں میں پھیلتی چلی گئ اور اسکی شدت میں اضافہ ہوتا گیا اور آخرکار 1968 میں اٹلانٹک سٹی نیو جرسی میں منعقدہ مقابلہ حسن تک اس آگ کے شعلے پہنچ گئے ۔ خواتین چاپتی تھیں کہ انھیں سیئریس لیا جائے اور اس طرح کے حسن کے مقابلہ جات دراصل عورتوں کا استحصال ہیں وہ چاہے کتنی ہی زہین کیوں نہ ہوں مگر انکی ذہانت کی بجائے اہمیت صرف انکی شکل و صورت کی ہو گی اس سے بھی بڑھ کے یہ کہ وہ جنسی طور پہ کس حد تک متاثرکن ہیں ۔ تہذیب کے زمانے گزرنے کے باوجود بھی ابھی تک شاذ و نادر ہی کوئی عورت جو جسمانی طور پر کم متاثر کن ہو کسی بھی قسم کےمقابلہ حسن میں نظر آ پائے گی ۔

تحریک نسواں کے علمبرداروں کا مطالبہ تھا کہ خواتین کو سنا جائے انہیں اہمیت دی جائے اس میں تیزی لانے کے لئے خواتین نے اپنی زیر جامہ تک جلانے شروع کر دیئے اور یہ ' برا برننگ موومنٹ ' کے اجتماعات تمام پر ہجوم جگہوں پر نظر آنے لگے ۔ زیر جامہ جلانے کا عمل خواتین کی طرف سے مردوں سے آزادی حاصلکرنے کے لئے ایک احتجاجی علامت کے طور پہ سامنا آ گیا ۔ اسکے علاوہ اسکا مقصد یہ بھی ٹھہرا کہ عورتیں مصنوعی پن سے نجات چاہتی ہیں ۔ امریکہ جیسے ملک بھر میں یہ احتجاج زور پکڑ گیا اور بڑے بڑے کچرا دان جابجا نظر آنے لگے جنکو فریڈم ٹریش کین کا نام دیا گیا جس میں عورتیں اپنے میک اپ کا سامان ، ہیئر کرلرز ، اونچی ایڑھی والے جوتے اور اسی قسم کا دوسرا بیوٹی سے متعلقہ سامان پھینکنے لگیں ۔ کچھ خواتین نے توجہ کے حصول کے لئے اپنی برا تک جلائیں خواتین نے زیر جامہ پہننے چھوڑ دیئے تاکہ آزادی کے احساس کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا جا سکے ۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ مردوں کی طرف سے خواتین کے ان اقدام کو بہت ہی ہلکا لیا گیا اور انکو اس سے کوئی خاص فرق نہ پڑا ۔
7 ستمبر 1968 کو تقریبا چار سو خواتین کے گروپ نے بیوٹی سٹینڈرز کے خلاف بینرز اٹھائے ۔ 1968 میں مقابلہ حسن میں ہونیوالا احتجاج جسمیں اس وقت ایک سو پچاس سے زائد خواتین شریک تھیں اور بعد میں ملک کے مختلف حصوں سے شامل ہونیوالی خواتین کی تعداد بڑھتی چلی گئی یہ احتجاج وقت کے گزرنے کے بعد ایک متنازعہ صورت اختیار کر گیا ۔ اس کے بارے میں یہ ابہام پیدا ہو گیا کہ یہ احتجاج درحقیقت ہوا ہی نہیں اور اگر ہوا بھی تو اس قسم کا نہیں تھا یا اس نے کوئی شدید نوعیت اختیار نہیں کی حقیقت میں زیرجامہ جلانے یا فریڈم ٹریش کین والا کوئی واقعہ رونما ہی نہیں ہوا اور جو احتجاج ہوا اسکو مختلف دوسری صورتوں میں تاریخ کا حصہ بنا دیا گیا ۔
 خواتین کی آزادی کی تحریک اور حقوق کی ایک دفعہ چھڑ جانیوالی یہ جنگ مختلف صورتوں میں تاحال بھی جاری ہے ۔ اسکی موجودہ صورت ' مائی باڈی مائی چوائس ' کے سلوگن میں امریکہ اور یورپ جیسے ترقی یافتہ معاشروں سے لے کر پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک اور استحصال شدہ معاشرے میں ' میرا جسم میری مرضی' اور 'اپنا کھانا خود گرم کر لو ' جیسی صورت میں نظر آتی ہے ۔ ہر معاشرے میں ابھی تک عورتوں پر دباو کسی نہ کسی صورت میں موجود ہے حالانکہ ترقی کی بلندیوں پہ پہنچ جانے کے باوجود بھی خواتین کو انکے حقوق اور برابری دینے میں مردوں کے معاشرے تاحال ناکام نظر آتے ہیں اور خواتین احتجاج کی صورت میں جب اسکے خلاف آواز اٹھاتی ہیں تو اسکو دبانے کی کوئی نہ کوئی سماجی ، اخلاقی یا مذہبی وجہ ڈھونڈ ہی لی جاتی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آنیوالے وقتوں میں جب خود آگاہی کا لیول بلندیوں کو چھو رہا ہے کیا خواتین اپنے آپ کو منوانے اور اپنے حقوق کی جنگ لڑنے میں کامیاب ٹھہرتی ہیں یا اس سلسلے میں ہونے والی 'میرا جسم میری مرضی اور ' اپنا کھانا خود گرم کر لو' قسم کی تحریکیں بھی مستقبل میں نہ صرف برا برننگ موومنٹ کی طرح ایک داستاں بن کر رہ جائیں گی بلکہ حقیقی حقوق نسواں کی تحریک جس کی ہر دور میں ضرورت رہی ہے اسکی ناکامی کی ایک بڑی وجہ بھی بن جائیں گی ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں