خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

جمعرات، 14 جنوری، 2021

سپلائی شاک اور کورونا وائرس

  کورونا وائرس کے پیش نظر پیدا ہونے والے معاشی بحران کو سمجھنے کے لئے ہمیں یہ سادہ ترین اور واضح بات اپنے ذہن میں بٹھانے کی ضرورت ہے کہ ایک شخص کا خرچ دوسرے کی آمدن ہے اور اسی ایک سادہ اصول پر تراسی ٹریلین ڈالر کی عالمی معیشت چل رہی ہے۔ 




ایک سرمایہ دارانہ معیشت کا تمام کا تمام دارومدار آمدن و خرچ کے ساتھ ساتھ پیداوار اور استعمال پر بھی ہے۔ یہ ایک مسلسل چلنے والی مشین ہے ہمیں جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ہم وہ دوسرے لوگوں سے خریدتے ہیں اور اس کے بدلے میں ان کے تیار کرنیوالوں کو رقم فراہم کرتے ہیں جو بدلے میں اس رقم سے اپنی ضرورت کی اشیاء خریدتے ہیں اور سلسلہ یونہی ہمیشہ چلتا رہتا ہے۔ 


اب آتے ہیں اصل مسئلے کی طرف جو کہ کورونا کا اس کبھی نہ تھمنے والے چکر کو ایک غیر معینہ مدت کے لئے مکمل طور پر روک دینے کا ہے۔ 

معاشی تاریخ میں پہلے کبھی بھی ایسا ہوتے نہیں دیکھا گیا اس لئے ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں جانتا کہ اس معاشی پہئے کے رک جانے سے دنیا کو کس قدر نقصان ہو جائے گا اور نہ ہی یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس مشین کو دوبارہ سے ورکنگ پوزیشن میں لے کر آنا کتنا مشکل ہو گا؟


مختلف حکومتوں کی جانب سے جاری کردہ معاشی

 رپورٹس اور چارٹس کی مدد سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ معاشی بحران شدید ترین ہو گا۔ بیشتر دنیا بشمول امریکہ میں رسد اور طلب کی کمی کے باعث معاشی بحران پیدا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اوسط آمدن میں بھی کمی واقع ہوئی ہے ۔ چیزوں کی طلب کی کمی نے ان چیزوں کے بنانے والوں کو مہیا ہونے والی رقم میں کمی کر دی ہے ۔


کورونا وائرس کے پھیلاو کے چند اولین ہفتوں میں ہی معاشی تجزیاتی بیورو نے اوسط آمدن و خرچ کی گراف میں تیزی سے ایک بڑی کمی ریکارڈ کی۔ 2019ء میں صرف امریکیوں نے آمد ورفت میں چار سو اٹھہتر ارب ڈالر خرچ کئے تھے جن میں کرایہ تو شامل ہے مگر گاڑیوں کی خرید و فروخت پہ لگنے والی رقم اس کے علاوہ ہے۔ 

اسی طرح امریکی عوام نے پانچ سو چھیاسی ارب ڈالر صرف سیاحت پر لگائے اور 1.02 کھرب ڈالر صرف ہوٹلوں اور ریستورانوں میں کھانے پر خرچ کیا اور گھریلو استعمال کے لئے جریدے جانے والی غذائی اشیاء اس رقم کے علاوہ ہیں۔ جن پر اندازا 2.1 کھرب ڈالر کی سالانہ رقم خرچ ہوتی ہے جس میں ایک غیر معینہ مدت تک واضح کمی ہو رہی ہے بلکہ اس کے بارے میں کوئی بھی حتمی اندازہ کرنا ممکن نہیں ہے۔


یہ کمی صرف یکطرفہ نہیں ہے بلکہ کم خرچ دوسری طرف کم آمدن کی وجہ بھی ہے۔ ان شعبوں سےحاصل ہونے والا ریوینیو کئی جگہوں پر جاتا ہے۔ یہ مزدوروں کو فراہم کی جانے والی رقم ہے۔ یہ سپلائرز کو ملتا ہے۔ اس سے جانے والے ٹیکس سے سرکاری محکموں کی تنخواہوں کی ادائیگی ہوتی ہے۔ سرمایہ کاروں کو رقم فراہم ہوتی ہے۔ پراپرٹی بنتی ہے اس کے کرایے کی ادائیگی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ بھی کئی کاموں اور ان گنت شعبوں میں یہ رقم جرچ ہوتی ہے اور یہ سائیکل ایسے ہی چلتا رہتا ہے۔ 


دنیا میں وقتا فوقتا لگنے والے لاک ڈاون کی وجہ سے فضائی سفر، کھیل و تفریح، پرفارمنگ آرٹس، جوا خانے، بارز اور ہوٹلز وغیرہ شدید ترین مالی بحران کا شکار ہوئے ہیں۔ ان چند شعبوں میں 2018ء میں پانچ سو چوہتر کھرب ڈالر کا سرمایہ استعمال ہوا جو کہ تمام دنیا کے استعمال کردہ سرمایے کا دس فیصد ہے اقر اس سارے سرکل میں 13.8 ارب ملازمین کا روزگار وابستہ ہے صرف انھی کو اگر دیکھا جائے تو معاشی دنیا کے لئے ایک بڑا دھچکا ہیں۔ جبکہ دنیا بھر میں انڈسٹری ورکرز کو بھی اگر شامل کر لیا جائے تو گیارہ کھرب ڈالر کی ایک خطیر رقم صرف اور صرف ملازمین کی ایک ہفتے کی تنخواہوں کی مد میں استعمال ہو جاتی ہے۔ 


اس سب نقصان کے اندازوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ بھی نظر میں رکھنا ہو گا کہ ہوٹلوں کی بندش کے ساتھ مختلف سٹورز اور دکانوں سے کھانے پینے کی اشیاء کی خریداری میں اضافہ ہوا اور صحت کی سہولیات کی دستیابی میں بھی ایک خطیر رقم خرچ کی گئی مگر معاشی پہیہ تو غیر یقینی طور پر ڈولتا ہی رہا بلکہ ڈاکٹر ، نرس، اشیائے ضرورت کی دکانوں پر کام کرنے والوں کے ورکنگ آورز بڑھ جانے کی وجہ سے ویٹرز، بار ٹینڈرز، فلائٹ اٹینڈنٹس اور ہوٹلوں میں موجود ورکرز کی تنخواہوں اور کام میں واضح کمی واقع ہو گئی کیونکہ ریستوران خالی رہ گئے اور دنیا بھر کے ایئر پورٹس میں جہازوں کو کھڑے کرنے کی جگہ کم پڑ گئی اور یہ صرف کورونا وائرس کے معاشیات پر ابتدائی اثرات ہیں۔ 


بڑے پیمانے پر اگر دیکھا جائے تو معاشی بحران کی وجہ سے بنکوں کو ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے ۔ اس کے نتیجے میں کچھ مضبوط کمپنیاں تو اس بحران سے بچ نکلنے میں کامیاب ہو جائیں گی مگر لاکھوں ایسی ہوں گی جو اپنی ساکھ برقرار نہ رکھ پائیں گی۔ اس کے نتیجے میں تیل اور روانائی کا بحران عالمی سطح پر نوکریوں میں کمی اور انرجی پروڈکشن سیکٹر میں ناقابل تلافی نقصان کروا دے گا۔ 


معاشی نقصان کی یہ تمام صورتحال کورونا وائرس کے  ساتھ پھیل کر گھر گھر تک پہنچی ہے ٹریول سے متعلقہ شعبے تو راتوں رات چلتے بند ہو گئے لیکن کئی دوسری صنعتیں جو وقتی طور پر تو نہ رکیں مگر ستمبر 2001ء میں ہونے والے اٹیک کے نتیجے میں بظاہر معمولی نظر آنیوالے نقصان کی صورت میں درحقیقت بڑے شدید اور ناقابل تلافی نقصان کا سامنا کر رہی ہیں۔ 


کورونا وائرس کی بدولت چند ماہ قبل وقتی طور پر غیر یقینی صورتحال اب یقینا تاریخ کے بد ترین' سپلائی شاک' میں تبدیل ہو چکی ہے۔ جس کی بڑی وجہ چینی مال کی تیاری اور دنیا بھر میں ترسیل کا رک جانا بھی ہے لیکن یہ سپلائی شاک بڑی تیزی سے عالمی معاشی شاک میں بدل کر رہ گیا ہےجو کہ شاید ہی اب ہم لوگوں کی زندگیوں میں کبھی ختم ہو پائے اور تاریخ میں لکھا رہ جائے گا کہ بظاہر ایک معمولی وائرس بڑے مضبوط معاشی پہاڑ کو بھی لگ جائے تو کیسے اس کو ریزہ ریزہ کر کے رکھ دیا کرتا ہے۔ 


سحر عندلیب

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں