خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 30 دسمبر، 2020

رواں سال2020 میں ہم سے بچھڑ جانے والے سائنسدان


رواں  سال میں ہم سے بچھڑ جانے والے سائنسدان جو اپنے کام کی وجہ سے رہتی دنیا تک سائنس کے آسمان پر چمکتے ستارے بن کے ہمیشہ جگمگائیں گے ۔

.Let the world know and pay a tribute to the legends

     جیف میکنائیٹ (1984-2020)

جیف میکنائیٹ یونیورسٹی آف اوریگون کا مالیکیولر بائیلوجسٹ تھا جس کی چھتیس سال کی عمر میں اکتوبر میں موت واقع ہو گئی۔ 

جیف کی ریسرچ کروماٹین پر تھی جو کہ ڈی این اے اور پروٹین کا ایسا مکسچر ہوتا ہے جس کا کام ڈی این اے اور جینز کی کاپیاں بنانا ہوتا ہے ۔ وہ دنیا میں ان چند سائنسدانوں مین سے ایک تھا جو ڈی این اے سٹرکچر میں تبدیلیاں کر کے بیماریوں کے خاتمے پر کام کر رہے تھے ۔ 2016ء میں جب جیف نے اپنی لیب کا باقاعدہ آغاز کیا تو اس کا کہنا تھا کہ کرومیٹن بے قاعدگیوں کیوجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں مثلا پارکنسنز، الزائمرز اور ہنٹنگنز پہ اپنی ریسرچ کو اپلائی کر کے انکا علاج دریافت کرنا اسکا خواب ہے۔ لمفوما کینسر سے موت واقع ہونے سے کئی ماہ قبل یہ ذہن شخص سوشل میڈیا پہ اپنی بیماری کی تشخیص اور علاج کے طریقہ کار پہ اپنی ریسرچ لوگوں سے شئیر کرتا رہا تا کہ اس سلسلے میں کام کرنیوالے دنیا بھر کے دوسرے سائنسدانوں کو مدد مل سکے اس طرح جیف نے جس حد تک ممکن ہو سکا انسانیت کی مدد کر کے دکھائی۔

 

  سٹینلے کوہن(1922-2020)  

نوبیل انعام یافتہ بائیو کیمسٹ سٹینلے کوہن جنھوں نے سیل گروتھ فیکٹرز میں ریسرچ
کا باقاعدہ آغاز کیا فروری میں وفات پا گئے ۔ انکی عمر ستانوے سال تھی۔ انکا کام نہ صرف خلیے کی تقسیم پہ ہے بلکہ انھوں نے کینسر میں استعمال ہونے والی کئی دوائیاں بھی بنائی۔ 1986ء میں انکو اپنی ساتھی سائنسدان ریٹا لیوی مونتالسینی کے ساتھ فزیالوجی اور میڈیسن میں اپنے کام پر نوبیل انعام سے نوازا گیا۔ کوہن نے ایک پروٹین دریافت کی جو کہ جسم میں خلیوں کے بے قاعدہ تقسیم کی وجہ بنتی ہےاور اس سے کینسر کی تشخیص میں مدد ملی ۔ اس دریافت کے بعد سے گروتھ فیکٹرز کو مدنظر رکھتے ہوئے کینسر کی دوائیاں بنائی جا رہی ہیں ۔


 اینجلیکا امن (1967-2020)

انجلیکا امن ایم آئی ٹی میں سیل بائلوجسٹ تھیں جنھوں نے 29 اکتوبر کو اوورین
کینسر کی وجہ سے وفات پائی۔ 
اینجلیکا نے سیل سائیک اور اسکی بے قاعدہ تقسیم کیسے کینسر پیدا کرنے کا باعث بنتی ہے پہ ریسرچ کی۔ وائانا یونیورسٹی میں اپنی پی ایچ ڈی ریسرچ اور ایم آئی ٹی میں اپنی پوسٹ پی ایچ ڈی ریسرچ میں اینجلیکا نے خمیر اور مکھیوں کی مدد سے یہ ثابت کیا کہ کیسے کسی جسم میں چند پروٹینز اور انزائمز خلیاتی تقسیم کی وجہ بن جایا کرتے ہیں۔ بعد میں اینجلیکا نے اینیوپلائڈی پہ ریسرچ شروع کر دی ۔ بائیولوجی کی اس شاخ میں کروموسومز کی غیر ضروری تعداد اور تقسیم پر کام کیا جاتا ہے ۔ اس طرح اس ذہین سائنسدان نے اپنی زندگی کینسر کی تشخیص اور علاج میں وقف کئے رکھی ۔



 جیمز ٹائلر(1979-2020) 

چالیس سالہ جیمز ٹائلر نے اپریل میں وفات پائی وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے
بائیو انفارمیٹک پلیٹ فارم کو تشکیل دینے والا ذہین انسان تھا اپنی ڈاکٹریٹ کی ریسرچ میں جیمز نے گلیکسی پروجیکٹ نامی جینومک ڈیٹا شئیرنگ پلیٹ فارم تشکیل دیا جو کہ بائیولوجی کے دس ہزار سے زیادہ جرائد میں استعمال کیا گیا آج ہم کلاوڈ پر بائیو انفارمیٹک کےتمام پروگرام اسی غیر معمولی سائنسدان کی بدولت استعمال کر رہے ہیں کووڈ کی وبا میں بھی ڈیٹا شئیرنگ اور انلائزنگ کے کئے جیمز ٹائلر کا ہی تیار کردہ پروگرام استعمال ہو رہا ہے۔

  ویلیئم ڈیمنٹ(1928-2020) 

نیند کے امراض کے علاج پہ پہلا کلینک بنانے والا سائنسدان جون میں اکانوے سال
کی عمر میں دار فانی سے کوچ کر گیا ۔ ویلیئم ڈیمنٹ ہی وہ سائنسدان ہے جس نے نیند کے امراض کی سب سے پہلے تشخیص کی ۔1950ء میں اپنی شکاگو یونیورسٹی اندر نیند کی سائنس اور خواب کے بارے میں ریسرچ کی اور بعد میں سٹینفرڈ یونیورسٹی میں پچاس سال تک اسی شعبے کی درس و تدریس سے منسلک رہے ۔وہاں انکی ریسرچ نیند کی کمی سے ہونے والے مسائل اور ان کے علاج پر رہی اور سٹینفرڈ سلیپ میڈیسن سنٹر قائم کیا جو کہ بعد میں نیند کے امراض کی ریسرچ کا قومی ادارہ بنا ۔ نیند کی کمی ، نیند کے امراض اور سوتے میں دماغ کو آکیسجن کی محرومی جیسے مسائل کی نشاندہی کر کے ڈیمنٹ نے ہزاروں لاکھوں نہیں بلکہ دنیا کے تمام انسانوں کی زندگیوں کو متاثر کیا ہے ۔ 


   وینڈی ہیورن(1955-2020) 

وینڈی ہیورن وہ سائنسدان ہیں جنھوں نے زخم کے مندمل ہونے میں گاما ڈیلٹا نامی ٹی
خلیوں کا کردار پتا چلایا انھوں نے رواں سال بیس جنوری کو چونسٹھ سال کی عمر میں وفات پائی۔ وینڈی نے اپنی گریجویشن کے دوران ڈیوک یونیورسٹی میں ایک امیونولوجسٹ جان کیمبئر سے متاثر ہو کے اس فیلڈ کا انتخاب کیا جبکہ اس سے قبل وہ میڈیسن کے شعبے سے متاثر تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایک دم انھیں یہ خیال آیا اور پھر وہ خود کو اس شعبے میں جانے سے روک نہیں پائی تھیں وہ دراصل یہ جاننا چاہتی تھیں کہ جسم کا دفائی نظام درحقیقت کام کیسے کرتا ہے ۔ اپنی ڈاکٹریٹ کی ریسرچ میں انھوں نے مونوکلونل اینٹی باڈیز جو کہ کسی جسم کے ایک خاص حصے پر اثرانداز ہوتی ہیں انکا ٹی خلیوں پر اثر دیکھا اور بعد اپنی پوسٹ ڈاکٹریٹ پمیں خصوصا انھوں نے گاما ڈیلٹا ٹی   خلیوں پہ کام کیا اور پہلی دفعہ یہ بات پتہ چلی کہ یہ خلیے انسانی جلد اور آنتوں میں عام پائے جاتے ہیں اور ان کا جسم میں کتنا اہم کردار ہوتا ہے انھوں نے اس کو سمجھنے لئے ایک نقشہ بھی بنا کر دیا زخموں کی مندملی اور 
ٹیومر کو روکنے پہ ریسرچ میں وہ اپنی لیب میں دن رات ایک کئے ہوئے تھیں۔




  نوئل روس(197-2020) 


امیونولوجسٹ اور مائیکرو بائیولوجسٹ نوئل روس نے بہت کم عمری میں ہی آٹو
امیونٹی کو دریافت کر کے شہرت حاصل کر لی ۔ ان کے کام سے پہلے یہ تصور کیا جاتا تھا کہ جسم اپنے خلاف دفاعی سسٹم پیدا نہیں کیا کرتا ہے 
لیکن میڈیسن کے نو عمر سٹوڈنٹ ہو کر روس نے یہ ثابت کر دکھایا جب خرگوشوں کو ان کے جسم میں پیدا ہونے والے تھائیرایڈ کے اینٹی جن دیے گئے تو انکے صحتمند تھائیرایڈ تباہ یا ختم ہو کر رہ گئے۔ اگلی چند دہائیوں تک انھوں نے خود کار دفاعی نظام کی پیدا کردہ کئی بیماریاں اور انکے اسباب دریافت کرنے میں لگا دئے جس پہ انکے آٹھ سو اسی ریسرچ آرٹیکلز اور کئی کتابوں کا وسیع مجموعہ شامل ہے۔ 
میڈیسن کی کتاب میں ایک مکمل نئے باب کا اضافہ کرنے والے اس سائنسدان کو بلاشبہ خود کار دفاعی نظام کی دریافت کا بانی کہا جا سکتا ہے۔ یہ عظیم اور جانفشان شخص 30 جولائی کا بانوے سال کی عمر میں اپنے خالق 
حقیقی سے جا ملے۔


 فلپ لیڈر(1934-2020)  


ہارورڈ میڈیکل سکول میں مالیکیولر جینیٹیسسٹ جن کا کام مالیکیولر بائیو سے لے
کر، جسمانی دفاعی نظام اورکینسر کی پیدائش جیسے اہم شعبوں کا احاطہ کرتا ہے۔ 1960ء میں اپنی پوسٹ ڈاکٹریٹ کے دوران فلپ نے ایک تکنیک دریافت کی جس سے یہ ثابت ہوا کہ تین نیوکلیوٹائڈز ایسے ہیں جو امائنوایسڈز کی تشکیل کرتے ہیں یہ اپنی طرز کی ایک انوکھی دریافت تھی۔ 2012ء میں اپنے ایک انٹرویو کے دوران فلپ اس دور کو یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ اگلے دن کے کام اور تجربات کو سوچتے ہوئے سو جایا کرتے تھےاور انکا شوق ان کو صبح ہونے سے پہلے ہی جگا کر لیبارٹری میں پہنچا دیا کرتا تھا اگرچہ کام کا بوجھ کافی تھا مگر اس دوران حاصل ہونے والا علم تجربہ اور تسکین اس سے کہیں بڑھ کے تھی ۔ جینز کی پروٹین کوڈنگ کی دریافت کے بعد فلپ نے ایک ممالیہ جین کا مکمل نقشہ بنا کر دیا اور اور اتصال کردہ جینز کی تشکیل دی اس طرح جینیٹکس انجینئرنگ ممکن ہوئی اور لیب میں کینسر کا پہلا سیل بنانے کا سہرا بھی فلپ کے سر ہی جاتا ہے ۔ 1981ء میں فلپ نے ہارورڈ میڈیکل سکول میں جینیٹکس ڈیپارنمنٹ کی بنیاد رکھی اور پچیس سال تک اس ادارے کو شب و روز محنت سے چلایا ۔فروری مین اگرچہ پچاسی سال کی عمر میں انکی وفات واقع ہو گئی مگر جینیات کے میدان میں فلپ کا نام ہمیشہ رہے گا۔


 فلوزی وونگسٹال (1946-2020) 


مائیکروبائیولوجسٹ وائروولوجسٹ فلوزی وہ پہلی سائنسدان ہیں جنھوں نے انسانوں
میں ایچ آئی وی کا پہلا کلون تیار کیا ۔ تہتر سالہ سائنسدان نے جولائی نمونیہ سے وفات پائی۔ فلوزی کی ریسرچ نے پہلے سائنسدانوں کے مفروضے کو ثابت کر دیا کہ ریٹرو وائرس کینسر کی وجہ  بنتے ہیں۔ ڈاکٹر فلوزی اور انکی ٹیم نے پہلے انسانی ریٹرو وائرس
( HTLV-1)
کا ماڈل بنا کر دیا۔ انھوں نے اپنے ساتھی روبرٹ گالو کے ساتھ مل کر بیس سال ایڈز پر ریسرچ کی اور سو سے زیادہ یپپرز چھپوائے۔ 1980ء سے لے کر اب تک ان کا کام حوالہ جات کے لئے سب سے زیادہ استعال ہوتا ہے۔ 1980ء میں چونکہ ایڈز کے کیسز میں اضافہ ہو رہا تھا تو تمام سائنسدان اس کی دریافت اور علاج میں دن رات ایک ہوئے تھے ایسے میں فلوزی وہ پہلی سائنسدان ہیں جو ایچ آئی وی کا کلون تیار کرنے میں کامیاب ہوئیں اور اسکی جینیاتی سٹڈی شروع کی تاکہ علاج کا موثر طریقہ کار دریافت کیا جا سکے۔ انھوں نے قومی ادارے میں واقع اپنے ساتھی گالو کی کینسر ریسرچ لیب کو چھوڑ کر1990ء میں ایڈز ریسرچ لیب قائم کر لی جہاں انھوں نے اپنی زندگی کے باقی سال ایڈز کے وائرس کی سٹڈی اور طریقہ علاج دریافت کرنے میں گزار دئے ۔ ان کے بتائے ہوئے طریقے سے ہی آج بھی ایڈز کے مریضوں کا علاج کیا جاتا یے۔


لینیکا ستروزئیر (1985-2020)

لینیکا ستروزئیر فیلڈ میوزیم میں ایک اہم ریسرچر اور بائیولوجسٹ ہونے کے ساتھ
میلکم ایکس میں انسٹرکٹر بھی تھیں ۔ 7 جون کو پینتس سال کی عمر میں کورونا وائرس کا شکار ہو کر ہلاک ہوئیں۔ 
لینیکا کو اپنے ابتدائی زمانہ طالبعلمی سے ہی پرندوں میں دلچسپی رہی تھی جو کہ بعد میں انکی پرندوں کے ڈی این اے کو جانچ کر کئی اقسام کی دریافت کی وجہ بنی ۔ یونیورسٹی میں اپنی ریسرچ میں لینیکا نے میڈگاسکر میں دو سو مختلف اقسام کے پرندوں کی انکے ڈی این اے کی بدولت شناخت کی جن کو پہلے صرف تین اقسام پر مشتمل سمجھا جاتا تھا ۔ یہ یقینا اپنی طرز کا ایک انوکھا اور بہت اعلی درجے کا کام تھا۔ اس کے علاوہ اس ذہین لڑکی نے کتنی ہی پرندوں کی انواع دریافت کیں جو کہ اپنی ساخت اور شکل کی وجہ سےاس سے قبل کسی کو بھی ایک الگ قسم کے طور پر کبھی محسوس بھی نہیں ہوئی تھیں۔ جینیاتی مادے کو ہاتھ کی صفائی اور نہایت مہارت سے پرانے سیمپلز میں سے الگ کرنے کی صلاحیت انکی وجہ شہرت بنی۔ وہ پندرہ سالہ پرانے خشک نباتاتی مادے کی انتہائی کم مقدار میں سے بھی ڈی این اے نکالنے میں فیلڈ میوزیم لیب میں کام کرنیوالے تمام ساتھیوں سے زیادہ اہل تھیں اور اس نازک اور پیچیدہ کام میں سب اس بہترین سائنسدان کے معترف تھے ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں