خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 6 نومبر، 2018

توانائی کی منتقلی اور ماخذ

توانائی کی منتقلی اور ماخذ

صنعتی انقلاب اصل میں توانائی کے تغیر میں انقلاب واقع ہوا ۔ ہمارے نظام اندر توانائی کی مقدار میں کوئی حد نہیں ہے اصل حد تو ہماری کم علمی ہے ۔ ہر چند دہائیوں بعد ہم توانائی کا ایک نیا ماخذ دریافت کر لیتے ہیں اسلئے ہمارے نظام اندر توانائی کی مقدار میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ
اتنے زیادہ لوگ توانائی کی کمی اور قدرتی ایندھن کے خاتمے کے خوف میں کیوں مبتلا ہیں ؟
جی ہاں ، دنیا میں توانائی کی کمی نہیں ہے بلکہ ہمارے پاس اس توانائی کو دریافت کرنے اور اپنے استعمال میں لانیوالے علم کی کمی ہے ۔ قدرتی توانائی کے دنیا میں موجود تمام ماخذ کا مقابلہ اس توانائی سے نہیں کیا جا سکتا جو ہر روز سورج ہمیں مفت میں مہیا کرتا ہے ۔ شمسی توانائی کا صرف ایک انتہائی معمولی سا حصہ ہم تک پہنچتا ہے جو کہ سینتیس لاکھ چھیاسٹھ ہزار آٹھ سو ایگزاجول سالانہ ہے ( ایک جول توانائی کی وہ اکائی ہے جو کہ ایک سیب کو ایک میٹر اوپر اٹھانے میں صرف ہوتی ہے ، ایگزاجول کئی بلین جولز مطلب بہت زیادہ سیبوں کو اٹھانے کی طاقت صرف ہونا ) دنیا کے تمام نباتات اپنے ضیائی تالیف کے عمل کے دوران صرف تین ہزار ایگزاجولز استعمال کرتے ہیں ۔ تمام انسانی سرگرمیوں اور صنعتوں میں سالانہ پانچ سو ایگزاجولز خرچ ہوتے ہیں جو کہ سورج سے زمین کو صرف نوے منٹ کے دورانیے میں مہیا ہو جاتے ہیں اور یہ ابھی صرف شمسی توانا
ئی ہے ۔ اسکے علاوہ بھی توانائیی کے بڑے بڑے ماخذ ہمارا گھیراو کئے ہوئے ہیں جیسا کہ جوہری توانائی اور کشش ثقل جو کہ زمین پر سمندر میں چاند کیوجہ سے مدوجزر پیدا کرتی ہے ۔
صنعتی انقلاب سے قبل انسانی مارکیٹ کا مکمل انحصار نباتاتی توانائی پر تھا ۔ لوگ ایک سبز ذخیرہ آب کے گرد رہا کرتے تھے جو کہ تین ہزار ایگزاجول سالانہ استعمال کرتا تھا اور اسمیں سے جتنی توانائی ممکن ہو نکالنے کی کوشش کرتے تھے لیکن پھر بھی اسکی ایک حد مقرر تھی ۔ صنعتی انقلاب کے دوران ہمیں یہ احساس ہوا کہ ہم توانائی کے ایک ایسے سمندر کے گرد رہ رہے ہیں جو کہ کئی  بلینز ایگزاجولز مخفی توانائی اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہے ۔ ہمیں صرف اس توانائی کو قابل استعمال بنانے کے طریقے دریافت کرنے ہیں ۔ 
توانائی کے مناسب استعمال کو سیکھ جانے سے ہم نے خام اشیاء کی کمی سے پیدا ہوئے معاشی مسائل پہ بھی قابو پایا ۔ جب انسان نے سستی توانائی پیدا کرنے کا طریقہ ڈھونڈ لیا تو اس نے پہلے سے موجودہ خام توانائی کے ماخذ کا بے دریغ استعمال بھی شروع کر دیا ( مثلا سائییبیریا کے ویرانوں سے لوہے کی دریافت ) یا پھر دور دراز علاقوں سے خام اشیاء کی فراہمی ( مثلا برطانوی ٹیکسٹائیل مل کیلئیے آسٹریلین وول ) اسکے ساتھ ہی سائنسی طریقہ کار نے انسان کو اس قابل کر دیا کہ اس نے پلاسٹک جیسی نئی خام اشیاء ایجاد کر لیں اور اس سے قبل لا معلوم سیلیکون اور ایلومینئیم جیسے قدرتی ذرائع دریافت کر لئیے ۔ 
کیمیا دانوں نے اگرچہ 1820ء میں ایلومینئیم دریافت کر لیا لیکن اس خام دھات کو فلٹر کرنا بہت مشکل اور مہنگا عمل تھا ۔ کئی دہائیوں تک ایلومینئیم سونے سے بھی کئی گنا مہنگی تصور کی جاتی تھی 1860ء میں فرانس اندر شہنشاہ نیپولین سوم کے حکم پر صرف اس کے خاص مہمانوں کے لئییے ایلومینئیم کے چمچ نکالے جاتے تھے جبکہ کم اہم مہمانوں کی سونے کے چمچوں سے ضیافت کی جاتی تھی لیکن انیسویں صدی کے اختتام تک کیمیا دانوں نے ایلومنئیم کو بڑی مقدار میں فلٹر کرنے کا سستا طریقہ دریافت کر لیا اور اب اسکی پیداوار پوری دنیا میں تیس ملین سالانہ ہے ۔ نیپولین سوم یقینا اس بات سے حیران رہ جائیییگا کہ اسکے ماتحتوں کی اگلی نسلیں اب ایلومنیئیم میں نہ صرف اپنے سینڈوچ لپیٹ کے رکھتی ہیں بلکہ باقی ماندہ پھینک بھی دیتے ہیں ۔ 
دو ہزار سال قبل جب بحر روم کے علاقے کے لوگ خشک جلد کا شکار ہوتے تو وہ اپنے ہاتھوں پہ زیتون کا تیل مالش کرتے مگر اب ہاتھوں کے لئیے بنائی گئی کریم کا استعمال کرتے ہیں جس میں کئی اقسام کے اجزاء موجود ہوتے ہیں جو سب تقریبا پچھلے دو سو سال کی دریافت ہیں ۔
پہلی جنگ عظیم میں جرمنی کی ناکہ بندی کے دوران وہاں بہت سے خام مال خصوصا سلفیٹ کی کمی ہو گئی جو کہ تمام بارود کا اہم جزو ہے ۔ سلفیٹ کے بڑے ذخیرے انڈیا اور چلی میں تھے جرمنی میں بالکل نہیں پایا جاتا تھا امونیا سلفیٹ کی جگہ قابل استعمال تھا مگر وہ بنالینا بہت مہنگا کام تھا ۔ خوش قسمتی سے ایک یہودی کیمیسٹ فرٹز ہابر جسکا تعلق جرمنی سے تھا اس نے 1908ء میں ہوا کی مدد سے امونیا بنانے کا سستا ترین طریقہ دریافت کر لیا ۔ جب جنگ چھڑی تو جرمنی نے ہابر کا ہوا کی مدد سے بارود بنانے کا طریقہ صنعتی پیمانے پر شروع کر دیا ۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اگر ہابر وہ دریافت کرنے کے قابل نہ ہوتا تو جرمنی نے نومبر 1918ء سے بہت پہلے ہی ہتھیار ڈال دیئے ہونے تھے ۔ اس دریافت نے ہابر ( جس نے جنگ کے دوران زہریلی گیس کا استعمال بھی شروع کیا) کو1918ء میں نوبل پرائیز دلوایا یاد رہے یہ امن کا نہیں کیمسٹری کا نوبل پرائیز تھا ۔



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں