خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

بدھ، 16 جنوری، 2019

ایک فوجی ریچھ کی کہانی

ایک فوجی ریچھ کی کہانی
دوسری جنگ عظیم  کے دوران پولینڈ کی فوج میں توپ سازی کے سامان سپلائی کی  بائیسویں کمپنی  یونٹ میں ایک غیر معمولی سپاہی ووجٹیک نامی چار سو چالیس پاونڈ کا ایک ریچھ بھی تھا ۔
انسان, معلومات, معاشرہ, تاریخ,


شمالی ایران کی  پہاڑیوں میں ایک چھوٹا بھورا    ریچھ اس وقت اکیلا رہ گیا جب اسکی ماں کو شکاریوں نے ہلاک کر دیا۔ایک چھوٹےلڑکے نے جب اس کودیکھا تو اس کو اپنے پاس رکھ   لیا۔ 1942ء میں روس پر نازی حملے کے دوران  پولینڈ کی بائیسویں سپلائی بریگیڈ نے سائیبرین لیبر کیمپ سے آزاد ہو کر جنوب کی طرف ایران کو سفر کیا ۔  وہ لڑکا اپنے ریچھ کے ساتھ پولینڈ کے فوجیوں کے گروہ کو ملا  جو کہ ایران سے گزر رہے تھے ۔ انھوں نے جب بھوکے اور کمزور ریچھ کے بچے کو دیکھا تو اس پہ ترس کھایا  اور کچھ ایرانی سکوں، چاکلیٹ کے ایک ٹکڑے ، ایک فوجی چاقو اور بیئر کے ایک کین کے بدلے اس لڑکے سے یہ پیارا  سا ریچھ کا بچہ خرید لیا ۔  پہلے پہل انھوں نے سینیئر فوجیوں سے اسے چھپا کے رکھا مگر ایک  بھورے ریچھ کو چھپانا ایک مشکل کام تھا جو کہ تیزی سے بڑا ہوتا جا رہا تھا  ۔  آخر کار  سینئرز کو اس کا پتہ چل گیا  اور خوش قسمتی سے ریچھ  جس کا نام ووجٹیک رکھا گیا تھا اس کو فوجی یونٹ میں رہنے کی اجازت مل گئی۔ ایک نوجوان فوجی  پیٹر پرینڈس نے اسکو فوجی انداز میں سیلیوٹ کرنا بھی سکھا دیا اسی دوران اس نے اور بھی کئی فوجی عادات  اپنا لیں ۔
1943ء میں پولش کمپنی مصر تک پہنچ گئی  اور اٹلی  میں جنگی حدود اندر  دوبارہ سے داخلے کی تیاری شروع کر دی مگر سخت فوجی اصولوں کی وجہ سے پالتو جانوروں کو جنگی علاقوں میں لے جانے کی ممانعت تھی تو ایسی صورت میں کمپنی کے پاس ووجٹیک کو سرکاری سپاہی بنا دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔
ووجٹیک کمپنی یونٹ میں ایک چھوٹے بچے کے طور پر آیا لیکن جنگ  کے دوران کے عرصے میں وہ بڑا ہو گیا اور پولینڈ کی فوج میں اس کو کارپورل کا عہدہ بھی دیا گیا جو کہ لانس نائیک کے برابر کا فوجی  عہدہ ہے۔  غزہ کی گرمی میں ووجٹیک نے اپنے آپ کو گرمی سے بچانے کے لیے باتھ ٹینٹ  میں موجود شاور کا استعمال بھی سیکھ لیا ۔    ایک دن اس نے دشمن کے ایک ایجنٹ کو جو کہ اسلحہ  چرانے کے واسطے  فوجی کیمپ میں گھسا تھا  اتنا خوفزدہ کر دیا  اور اسکو  اس وقت تک بھاگنے نہیں دیا جب تک کہ یونٹ کے فوجیوں نے اسکو گرفتار نہیں کر لیا ۔  اس غیر معمولی واقعے پے ووجٹیک کو دو بوتل شراب اور  لمبے وقت تک نہانے کی سہولت کے انعام سے نوازا گیا ۔

ریچھ فوجی دستوں کے لئے  حوصلہ بڑھانے  کا سبب بنتا  رہا ۔ یونٹ کے فوجی ووجٹیک کے ساتھ باکسنگ اور ریسلنگ  بہت شوق سے کھیلا کرتے تھے ۔ ووجٹیک جب چھوٹا تھا تو وہ ٹرک کے فرنٹ پسنجر سائیڈ میں آ جایا کرتا تھا مگر بڑا ہو جانے پہ اسے سامان لے جانے والی گاڑیوں میں بٹھا کر یہاں وہاں لے جایا جاتا   رہا۔
اس کے بڑے سائز اور قوت کی وجہ سے ووجٹیک سے اسلحے کے بھاری کریٹ اٹھا کر ادھر سے ادھر لے جانے کا کام لیا جاتا رہا ۔ اس کو سروس نمبر الاٹ کیا گیا اور اس کے نام پر پے بک بھی جاری  کی گئی البتہ اس کو ادائیگی صرف خوراک کی صورت میں کی جاتی رہی۔ در اصل ووجٹیک نام بھی اس کو تبھی دیا گیا تھا جس کا مطلب ایک خوش باش سپاہی ہے۔  
جنگ بندی کے بعد جب یونٹ کے فوجی اپنے گھروں  کو سدھارے تو ووجٹیک کے لئے بھی گھر ڈھونڈا گیا  اور اس کو پولینڈ کے ایک چڑیا گھر میں رکھاگیا  جہاں سے اس کو بعد میں ایڈمبرگ  منتقل کر دیا گیا  ۔ووجٹیک نے اپنی زندگی کے باقی ایام ایڈمبرگ چڑیا  گھر میں رہتے ہوئےگزارے  ۔ ووجٹیک 1963ء میں مرا ۔ ووجٹیک  ایڈمبرگ سے دوبارہ پولینڈ تو نہ جا سکا مگر یہ کہا جاتا ہے کہ جب بھی وہ پولش زبان یا لہجہ سنتا تو بوڑھا  ریچھ سپاہی اپنی ٹانگوں پر کھڑا ہو کر اپنے پنجے کو لہرایا کرتا تھا  جیسے کہ وہ سیلیوٹ کر رہا  ہو۔
2011ء میں   پولینڈ کے ایک  چھیاسی سالہ فوجی واجشیک  نیربسکی    نےجو کہ ووجٹیک کے یونٹ میں آنے کے وقت سترہ سال کا تھا     

بی بی سی کو اس کے بارے  میں بتاتے ہوئے کہا"وہ کتے کے ایک چھوٹے بچے کے جیسا تھا  اسکو بوتل میں دودھ پلایا کرتے تھے وہ  ہم سپاہیوں کو اپنے والدین   کی طرح سمجھتا تھا   ہم پر اعتبار کرتا تھا اور بہت مانوس تھا  ۔ جب وہ بڑا ہوا تو اس کی خوراک بدل گئی لیکن وہ سپاہیوں سے پہلے سے زیادہ  مانوس ہوا ۔ ووجٹیک  بئیر اور سگریٹ کا شوقین تھا اور وہ سگریٹ نوشی کرنے کے علاوہ سگریٹوں کو کھایا بھی کرتا تھا اس کے لیے  ایک شراب کی بوتل معمولی بات تھی  اس کا وزن چار سو چالیس  پاونڈ تھا  شراب اس پر اثر انداز نہیں ہوا کرتی تھی ۔"
تا حال  وہ پولینڈ  میں اتنا مشہور اور ہر دلعزیز ہے  کہ 2015 ء میں ووجٹیک کا تین لاکھ پاونڈ کی مالیت کا کانسی کا  مجسمہ  بنایا گیا  اور مشہور اینی میٹڈ فلم  ' دی سنو مین ' کے  ایگزیکٹو پروڈیوسر کی جانب سے اس جنگی ہیرو کو خراج تحسین پیش کرنے کے لئے ایک فلم بنانے کا آغاز بھی کیا گیا ہے  کیونکہ وہ نہ صرف پولینڈ کی سرزمین پہ  بلکہ ان کے دلوں میں بھی ہمیشہ موجود رہے گا  ۔  



کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں