خود اپنی تلاش اور دنیا کو سمجھنے کی کوشش میں مصروف ایک طالب علم۔ سحر عندلیب، |

تازہ ترین

Post Top Ad

Your Ad Spot

منگل، 11 فروری، 2020

گیم آف تھرونز اور یورپ کی حقیقی بادشاہت



شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے میکبتھ میں شاہی کرداروں کے لئے لکھا گیا جملہ
They are born to rule if not to reigh

ایسی ہی کہانی حالیہ اختتام پذیر ڈرامے گیمز آف تھرون میں نظر آئی جس نے پچھلے چند سال سے دنیا بھر میں سب سے زیادہ دیکھے جانے کا ریکارڈ تو بنا ہی ڈالا ساتھ ہی ساتھ اپنے مداحوں کو ایسا جکڑا کہ ہر طرف یہی گفتگو ہوتی نظر آتی ہے۔
مگر آٹھویں سیزن کے اختتام پر آئرن تھرون کے مالک کے بارے میں کچھ وقت سے دنیا بھر میں چھڑی بحث کا بھی خاتمہ ہو گیا۔ سیزن نے اپنے اختتام پر ایک غیر معمولی اور انتہائی حیران کن موڑ لے کر سٹارک فیملی کے اپاہج بیٹے برین کو چھ سلطنتوں کا مالک بنا ڈالا اور ساتھ ہی خاندانی بادشاہت کا بھی خاتمہ کر ڈالا۔ ایچ بی او کے اس سیزن کی وجہ سے درحقیقت عوام میں زیادہ تر بے چینی کسی درست اور جائز بادشاہ کے تحت پر بیٹھنے کی ہی رہی تھی۔ ویسٹروس کے علاوہ ہمیں یورپی تاریخ میں بھی یہ چیز نظر آتی ہے کہ خاندانی لیول پر تحت و تاج کی منتقلی کتنی دشواریوں کی وجہ بن جاتی ہے۔

درحقیقت یورپ میں جب مرد بادشاہوں کی کمی ہوئی اور ڈینی اور سرسی جیسی ملکاوں نے اپنی حکمرانی کے دوران نہ صرف سماجی بلکہ معاشی طور پر بھی خوب نقصانات کروائے اور پہ در پہ بادشاہت کو خوب دھچکے دیئے۔ یہی وجہ ہے کہ جن ملکوں میں مرد بادشاہوں کی حکومت کم رہی وہ دوسرے ممالک کی نسبت کمزور رہ گئے ۔

یورپ میں قرون وسطی کے دوران ایک ہزار کی دہائی سے لے کر پندرہ سو تک سلطنت براہ راست منتقل ہوتی رہی ہیں اگرچہ خواتین اور کچھ دوسرے رشتے دار کے ہاتھ بھی کئی دفعہ کار حکومت جاتے رہے جس کی وجہ سے نہ صرف مختلف حکومتی ممبران اور گروہوں میں بلکہ عوامی سطح پر بھی ناپسندیدگی اور مسائل کھڑے ہوتے رہے ماہرین کا خیال ہے اس کے نتیجے میں مستقبل کی معاشی ترقی بری طرح متاثر ہوتی رہی۔

سوشیالوجی اور تاریخ کے ماہرین کے مطابق جن علاقوں میں بادشاہوں کے وارث بادشاہ ہی ہوتے رہے تو وہاں لیڈر شپ نہ صرف اچھی چلتی رہی بلکہ حکمران اس قابل بھی ہوتے رہے کہ وہ شاہی خزانے کو سپورٹ فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں اضافہ بھی کرتے رہے۔ اسی طرح جو سلطنت جتنی زیادہ پھیلی رہی اس میں بھی خوشخالی کی راہ پہ اتنی ہی زیادہ رکاوٹیں رہیں جیسے کہ سرسی کے دور حکومت میں سات سلطنتیں اپنے شاہی خزانے پہ انحصار کرنے کی بجائے مقروض ٹھہریں۔

ایک غیر اہم کردار جینڈری جس نے اختتام پر آ کر تمام مداحوں کو عجیب کشمکش میں ڈال دیا کہ کہیں آئرن تھرون کا جائز حقدار وہی تو نہیں ٹھہرے گا ؟ اس خوف کا پس منظر دراصل کنگ جوفری بریتھین کا بادشاہ کی تمام ناجائز اولادوں کے قتل کا حکم تھا تا کہ کوئی بھی سلطنت کا جائز وارث ہونے کا دعویدار نہ ہو جائے لیکن تاریخ سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ پرانے یورپ میں ناجائز اولاد کی سماجی حیثیت اتنی اہم کبھی بھی نہیں رہی کہ وہ سات سلطنتوں کی وراثت کا ہی دعوی کر ڈالیں بلکہ قرون وسطی میں اس معاملے میں نہایت قدامت پسند نظریات مروج تھے۔

سائنس اور تاریخ کی روشنی میں دیکھا جائے تو اگرچہ اور بھی کئی پہلو تھے جو کسی سلطنت کی مضبوطی کی وجہ ٹھہرے مگر اس میں مرد وارثین کے کردار کی اہمیت اس میں حیرت انگیز رہی ہے اسکی واضح مثال فرانس اور اٹلی کی بادشاہت ہیں جہاں حکومت زیادہ تر ملکاوں کی بجائے بادشاہوں کے ہاتھ میں رہی اور نتیجتا وہ ممالک اپنےاردگرد کی دوسری سلطنتوں سے نہ صرف ماضی میں بہتر تھے بلکہ تاحال سماجی اور معاشی حیثیت میں اوپر ہیں۔ اسی طرح نئی پیدا ہونے والی جدید حکومتیں اتنی کمزور ہوا کرتی تھیں کہ کوئی معمولی سی بد امنی بھی دیرپا اثر رکھتی تھی جیسا کہ گیم آف تھرونز میں جب حکمران وراثتی قانون کی بجائے ایک کونسل کے منتخب کردہ ٹھہرے اور سیم ٹارلی کے تجویز کردہ عوامی منتخب نمائیندوں کے حکومتی نظام کو کونسل نے مسترد کر دیا کیونکہ چھ ریاستیں بادشاہت کی بجائے جمہوریت کو اتنی جلدی گلے لگانے کو تیار نہیں تھیں۔
اور جس طرح تاریخ کی کتابوں میں حقیقی شاہی کرداروں کی ہمیشہ حکومت رہے گی ویسے ہی گیم آف تھرونز کے کردار بھی مداحوں کے دلوں میں ہمیشہ رہیں گے ۔


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

Post Top Ad

Your Ad Spot

میرے بارے میں